سائنسدانوں نے اس بیش قمیت اور طاقتور تجربے کی کامیاب ابتدا کو سراہا ہے جس کے نتیجے میں بگ بینگ یا عظیم تر دھماکے فوراً بعد کے لمحات ایک بار پھر پیدا کر کے کائنات کے وجود میں آنے کے بارے میں سائنسی نقطۂ نظر سے جانا جا سکے گا۔
فرانس میں زیر زمین واقع تحقیقاتی مرکز میں موجود سائنسدانوں نے پروٹون ذرات کی دو شعائیں داغی ہیں۔ پروٹون ذرات نے جب سرنگ میں پہلا چکر مکمل کیا تو اس پر تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اس سرنگ ایک بہت بڑا ہائیڈرون کولائیڈر بھی نصب کیا گیا ہے۔
اس تجربے کے بارے میں تین دہائی قبل سوچا گیا تھا۔ گزشتہ روز اس سلسلے میں ستائیس کلو میٹر لمبی سرنگ میں پروٹون ذرات کی پہلی ’بیم‘ یا شعاع چھوڑی گئی۔
نیوکلیائی ریسرچ کے یورپی ادارے سرن کے زیر اہتمام کیئے جانے والے اس تجربے کے دوران انجینیئر ذرات کی ایک شعاع کو ستائیس کلومیٹر طویل زیر زمین سرنگ نما مشین سے گزارنے کی کوشش کریں گے۔
پانچ ارب پاؤنڈ کی لاگت سے تیار ہونے والی اس مشین میں ذرات کو دہشت ناک طاقت سے آپس میں ٹکرایا جائے گا تاکہ کائنات کی ابتدا پر ہونے والے دھماکے اور اس کے اثرات کی علامتوں کو نئی طبیعات پر آشکار کیا جا سکے۔
فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد کے نیچے کھودی گئی اس بہت بڑی سرنگ میں ایک ہزار سلنڈر کی شکل کے مقناطیسوں کو ساتھ ساتھ رکھا گیا ہے۔ ان ہی مقناطیسی سلنڈروں سے پروٹون ذرات کی ایک لکیر پیدا ہو گی جو ستائیس کلو میٹر تک دائرے کی شکل میں بنائی گئی سرنگ میں گھومے گی۔
سرنگ میں پروٹون ذرات کے ٹکرانے سے دو لکیریں پیدا ہوں گی جنہیں اس مشین کے اندر روشنی کی رفتار سے مخالف سمت میں سفر کرایا جائے گا۔ اس طرح ایک سیکنڈ میں یہ لکیریں گیارہ ہزار جست مکمل کریں گی۔
سرنگ کے اندر مقررہ جگہوں پر ذرات کی یہ لکیریں ایک دوسرے کا راستہ کاٹیں گی اور ان کے اس ٹکراؤ کا مشاہدہ کیا جائے گا۔
سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس تجربے کے دوران نئے سب آئٹم سامنے آئیں گے جن سے کائنات کی ہیت کو سمجھنے کے لیے بنیادی معلومات حاصل ہوں گی۔